عکس فلک پر آئینہ ہے روشن آب ذخیروں کا
گرم سفر ہے قاز قافلہ سیل رواں ہے تیروں کا
کٹے ہوئے کھیتوں کی منڈیروں پر ابرک کی زنگاری
تھکی ہوئی مٹی کے سہارے ڈھیر لگا ہے ہیروں کا
تیز قلم کرنوں نے بنائے ہیں کیا کیا حیرت پیکر
جھیل کے ٹھہرے ہوئے پانی پر نقش اترا تصویروں کا
کیا کچھ دل کی خاکستر پر لکھ کے گئی ہے موج ہوا
پڑھنے والا کوئی نہیں ہے ان مٹتی تحریروں کا
ریگ نفس کا ذائقہ منہ میں گرد مہ و سال آنکھوں میں
میں ہوں زیبؔ اور چار طرف اک صحرا ہے تعبیروں کا
غزل
عکس فلک پر آئینہ ہے روشن آب ذخیروں کا
زیب غوری