اکیلی روح اکیلا مرا بدن بھی ہے
اکیلے پن کا یہ صحرا مرا چمن بھی ہے
کشود ذات کا منکر تھا کب خبر تھی مجھے
برہنگی ہی مری میرا پیرہن بھی ہے
خود اپنے قرب کی تنہائیوں میں گزرا ہے
وہ ایک لمحہ کہ خلوت بھی انجمن بھی ہے
کچھ اتنا سہل نہیں میرا فاش ہو جانا
مرے بدن پہ تو خوابوں کا پیرہن بھی ہے
بنا رہا تھا وہ حرف و صدا کے گل بوٹے
اسے خبر نہ تھی اک سوچنے کا فن بھی ہے
غزل
اکیلی روح اکیلا مرا بدن بھی ہے
اکبر حیدری