EN हिंदी
اکیلی روح اکیلا مرا بدن بھی ہے | شیح شیری
akeli ruh akela mera badan bhi hai

غزل

اکیلی روح اکیلا مرا بدن بھی ہے

اکبر حیدری

;

اکیلی روح اکیلا مرا بدن بھی ہے
اکیلے پن کا یہ صحرا مرا چمن بھی ہے

کشود ذات کا منکر تھا کب خبر تھی مجھے
برہنگی ہی مری میرا پیرہن بھی ہے

خود اپنے قرب کی تنہائیوں میں گزرا ہے
وہ ایک لمحہ کہ خلوت بھی انجمن بھی ہے

کچھ اتنا سہل نہیں میرا فاش ہو جانا
مرے بدن پہ تو خوابوں کا پیرہن بھی ہے

بنا رہا تھا وہ حرف و صدا کے گل بوٹے
اسے خبر نہ تھی اک سوچنے کا فن بھی ہے