EN हिंदी
اکیلے ہیں وہ اور جھنجھلا رہے ہیں | شیح شیری
akele hain wo aur jhunjhla rahe hain

غزل

اکیلے ہیں وہ اور جھنجھلا رہے ہیں

خمارؔ بارہ بنکوی

;

اکیلے ہیں وہ اور جھنجھلا رہے ہیں
مری یاد سے جنگ فرما رہے ہیں

یہ کیسی ہوائے ترقی چلی ہے
دیے تو دیے دل بجھے جا رہے ہیں

الٰہی مرے دوست ہوں خیریت سے
یہ کیوں گھر میں پتھر نہیں آ رہے ہیں

بہشت تصور کے جلوے ہیں میں ہوں
جدائی سلامت مزے آ رہے ہیں

قیامت کے آنے میں رندوں کو شک تھا
جو دیکھا تو واعظ چلے آ رہے ہیں

بہاروں میں بھی مے سے پرہیز توبہ
خمارؔ آپ کافر ہوئے جا رہے ہیں