اکثر رات گئے تک میں چوکھٹ پر بیٹھا رہتا ہوں
سگریٹ پیتا چاند کو تکتا من میں بکتا رہتا ہوں
ریک پہ رکھ کر بھول گیا تھا اس کے چہرے ایسی کتاب
ہاتھ میں جب آ جاتی ہے تو پہروں پڑھتا رہتا ہوں
مرمر کا پتھر بن جاتی ہے جب پورے چاند کی رات
اپنی نظروں کی چھینی سے مورتیں گھڑتا رہتا ہوں
آخری شو سے لوٹنے والے بھی غائب ہو جاتے ہیں
میں جانے کن تصویروں میں کب تک کھویا رہتا ہوں
غزل
اکثر رات گئے تک میں چوکھٹ پر بیٹھا رہتا ہوں
عمیق حنفی