اجنبیت کا ہر اک رخ پہ نشاں ہے یارو
اپنے ہی شہر میں غربت کا سماں ہے یارو
آسمانوں میں لچکتی ہوئی یہ قوس قزح
بھیس بدلے ہوئے راون کی کماں ہے یارو
اک سیاست ہے کہ ہے دیر و حرم کی محبوب
اک محبت ہے کہ رسوائے جہاں ہے یارو
اہل دل رہ گئے آثار قدیمہ ہو کے
زندگی ایک شکستہ سا مکاں ہے یارو
دل ہی شائستہ گل گشت نہیں ہے ورنہ
یہ زمیں آج بھی فردوس جواں ہے یارو
غزل
اجنبیت کا ہر اک رخ پہ نشاں ہے یارو
اقبال ماہر