EN हिंदी
اجنبی خواہشیں سینے میں دبا بھی نہ سکوں | شیح شیری
ajnabi KHwahishen sine mein daba bhi na sakun

غزل

اجنبی خواہشیں سینے میں دبا بھی نہ سکوں

راحتؔ اندوری

;

اجنبی خواہشیں سینے میں دبا بھی نہ سکوں
ایسے ضدی ہیں پرندے کہ اڑا بھی نہ سکوں

پھونک ڈالوں گا کسی روز میں دل کی دنیا
یہ ترا خط تو نہیں ہے کہ جلا بھی نہ سکوں

مری غیرت بھی کوئی شے ہے کہ محفل میں مجھے
اس نے اس طرح بلایا ہے کہ جا بھی نہ سکوں

پھل تو سب میرے درختوں کے پکے ہیں لیکن
اتنی کمزور ہیں شاخیں کہ ہلا بھی نہ سکوں

اک نہ اک روز کہیں ڈھونڈ ہی لوں گا تجھ کو
ٹھوکریں زہر نہیں ہیں کہ میں کھا بھی نہ سکوں