اجنبی بن کے تو گزرا مت کر
دوستی کا یوں تماشا مت کر
تیری آنکھیں نہیں دو جگنو ہیں
بے سبب ان کو بھگویا مت کر
اس کے آنے کا گماں ہوتا ہے
اے ہوا پردا ہلایا مت کر
میں مسافر ہوں سفر قسمت ہے
میرے بارے میں تو سوچا مت کر
زندگی ہو کہ محبت ہو شمسؔ
ایسی چیزوں پہ بھروسہ مت کر
غزل
اجنبی بن کے تو گزرا مت کر
شمس تبریزی