عجیب تجربہ تھا بھیڑ سے گزرنے کا
اسے بہانہ ملا مجھ سے بات کرنے کا
پھر ایک موج تہہ آب اس کو کھینچ گئی
تماشہ ختم ہوا ڈوبنے ابھرنے کا
مجھے خبر ہے کہ رستہ مزار چاہتا ہے
میں خستہ پا سہی لیکن نہیں ٹھہرنے کا
تھما کے ایک بکھرتا گلاب میرے ہاتھ
تماشہ دیکھ رہا ہے وہ میرے ڈرنے کا
یہ آسماں میں سیاہی بکھیر دی کس نے
ہمیں تھا شوق بہت اس میں رنگ بھرنے کا
کھڑے ہوں دوست کہ دشمن صفیں سب ایک سی ہیں
وہ جانتا ہے ادھر سے نہیں گزرنے کا
نگاہ ہم سفروں پر رکھوں سر منزل
کہ مرحلہ ہے یہ اک دوسرے سے ڈرنے کا
لپک لپک کے وہیں ڈھیر ہو گئے آخر
جتن کیا تو بہت سطح سے ابھرنے کا
کراں کراں نہ سزا کوئی سیر کرنے کی
سفر سفر نہ کوئی حادثہ گزرنے کا
کسی مقام سے کوئی خبر نہ آنے کی
کوئی جہاز زمیں پر نہ اب اترنے کا
کوئی صدا نہ سماعت پہ نقش ہونے کی
نہ کوئی عکس مری آنکھ میں ٹھہرنے کا
نہ اب ہوا مرے سینے میں سنسنانے کی
نہ کوئی زہر مری روح میں اترنے کا
کوئی بھی بات نہ مجھ کو اداس کرنے کی
کوئی سلوک نہ مجھ پہ گراں گزرنے کا
بس ایک چیخ گری تھی پہاڑ سے یک لخت
عجب نظارہ تھا پھر دھند کے بکھرنے کا
غزل
عجیب تجربہ تھا بھیڑ سے گزرنے کا
راجیندر منچندا بانی