عجیب شوخئ دنیا میں جی رہا ہوں میں
اسی کا جام غریبانہ پی رہا ہوں میں
تھا جا وہ بانٹ دیا اپنوں اور غیروں میں
اب اپنی جیب کے سوراخ سی رہا ہوں میں
جہاں تصور انسان تھک کے ہارتا ہے
اسی محاذ عبث میں کبھی رہا ہوں میں
کسی نے پوچھا کسی کے کسی خیال میں تھے
کہا جواب میں میں نے کہ جی رہا ہوں میں
کسی بھی رشتہ کی کچھ ابتدائی مدت تک
بطور آلۂ آرائشی رہا ہوں میں
بقول راویٔ کاشانہ ہائے جاناں کے
کسی کی آرزوئے آخری رہا ہوں میں
اب اس کی تند مزاجی نے یہ دھرا الزام
کہ اس کا پیرہن آتشی رہا ہوں میں
یہ اتصاف یہ نسبت بجا ہے اک حد تک
سراپا پیکر آزردگی رہا ہوں میں
کہیں کہیں میری آہوں میں اجنبیت تھی
سو دوسروں کے لئے اجنبی رہا ہوں میں
خبر میں لیتا ہوں تمجیدؔ اپنے آپ کی جو
خود اپنے آپ کا اخبارچی رہا ہوں میں
غزل
عجیب شوخئ دنیا میں جی رہا ہوں میں
سید تمجید حیدر تمجید