عجیب شخص ہے پتھر سے پر بناتا ہے
دیار سنگ میں شیشہ کا گھر بناتا ہے
جو زخم پھول کی پتی کا سہہ سکا نہ کبھی
اس آبلہ کو وہ اپنی سپر بناتا ہے
فضا کا بوجھ سمجھتا ہے چاند سورج کو
وہ گردنوں پہ سجانے کو سر بناتا ہے
جہاں سے قافلۂ وقت راہ بھولا تھا
انہیں سرابوں میں وہ رہگزر بناتا ہے
تراشتا ہے جگر وہ بھی آبگینوں سے
خذف کو کاسۂ عرض ہنر بناتا ہے
دل و نظر کے فسوں اس کو راس آ نہ سکے
وہ آئنوں سے گزرنے کو در بناتا ہے
یہ کس سے کہئے کہ تنویرؔ خود صلیبوں کو
سکون جاں کے لئے ہم سفر بناتا ہے

غزل
عجیب شخص ہے پتھر سے پر بناتا ہے
تنویر احمد علوی