عجیب شے ہے طرح دار بھی تمنا بھی
رقیب جاں بھی ہے قاتل بھی ہے مسیحا بھی
اداس اداس حریم نگاہ بے منظر
دھواں دھواں خلش رائیگاں سے دنیا بھی
دل و دماغ و نفس تشنگی سے ہیں روشن
اسی کی آگ میں جلتے ہیں شہر و صحرا بھی
وہی ہوائے جہاں تاب معتبر ہے کہ جو
جلا کے چھوڑ گئی ہے چراغ فردا بھی
طلب میں مجھ سے تو لمحہ بھی اک نہیں کٹتا
اسی خمار نے کاٹے ہیں کوہ و دریا بھی
ترے خیال سے خلوت بھی انجمن ہے مجھے
ترے خیال سے ہوں انجمن میں تنہا بھی
فضائے خواب طرب نے جگا دیا مجھ کو
لگی جو آنکھ تو ہونے لگا سویرا بھی

غزل
عجیب شے ہے طرح دار بھی تمنا بھی
سید امین اشرف