عجیب شام تھی جب لوٹ کر میں گھر آیا
کوئی چراغ لیے منتظر نظر آیا
دعا کو ہاتھ اٹھائے ہی تھے بہ وقت سحر
کہ اک ستارا مرے ہاتھ پر اتر آیا
تمام عمر ترے غم کی آبیاری کی
تو شاخ جاں میں گل تازہ کا ثمر آیا
پھر ایک شام در دل پہ دستکیں جاگیں
اور ایک خواب کے ہم راہ نامہ بر آیا
گلے سے لگ کے مرے پوچھنے لگا دریا
کیوں اپنی پیاس کو صحرا میں چھوڑ کر آیا
یہ کس دیار کے قصے سنا رہے ہو نویدؔ
یہ کس حسین کا آنکھوں میں خواب در آیا
غزل
عجیب شام تھی جب لوٹ کر میں گھر آیا
سیمان نوید