عجیب رت ہے درختوں کو بے زباں دیکھوں
دیار شام میں آہوں کا میں دھواں دیکھوں
چہار سمت سے آئی تھی برف کی آندھی
کہیں نہ پھول نہ رنگوں کی تتلیاں دیکھوں
یقین ان کو دلاؤں چمکتے سورج کا
حصار شب میں جو سہمے ہوئے مکاں دیکھوں
زمیں کو تو نے ڈرایا سدا مصائب سے
کبھی تجھے بھی ہراساں اے آسماں دیکھوں
لبوں پہ جس کے مسلسل پکار پانی کی
اسی کی آنکھ سے دریا بھی اک رواں دیکھوں
لہو لہان تو کوئی نظر نہیں آتا
لہو میں ڈوبی مگر سب کی انگلیاں دیکھوں
ہمارے عہد کے لوگوں کو کیا ہوا فکریؔ
سبھوں میں بجھتی ہوئی آگ کا سماں دیکھوں
غزل
عجیب رت ہے درختوں کو بے زباں دیکھوں
پرکاش فکری