عجیب رونا سسکنا نواح جاں میں ہے
یہ اور کون مرے ساتھ امتحاں میں ہے
یہ رات گزرے تو دیکھوں طرف طرف کیا ہے
ابھی تو میرے لئے سب کچھ آسماں میں ہے
کٹے گا سر بھی اسی کا کہ یہ عجب کردار
کبھی الگ بھی ہے شامل بھی داستاں میں ہے
تمام شہر کو مسمار کر رہی ہے ہوا
میں دیکھتا ہوں وہ محفوظ کس مکاں میں ہے
نہ جانے کس سے تری گفتگو رہی بانیؔ
یہ ایک زہر کہ اب تک تری زباں میں ہے
غزل
عجیب رونا سسکنا نواح جاں میں ہے
راجیندر منچندا بانی