عجیب منظر بالائے بام ہوتا ہے
جب آشکار وہ ماہ تمام ہوتا ہے
ہراس شب، اثر ضعف، خوف راہزناں
مسافروں پہ گراں وقت شام ہوتا ہے
بس اک نگاہ پہ ہے دل کا فیصلہ موقوف
بس اک نگاہ میں قصہ تمام ہوتا ہے
جب اپنے گھر پہ بلاتا ہوں میں کبھی ان کو
انہیں ضرور کوئی خاص کام ہوتا ہے
جواب دے نہیں سکتی زبان شوق مری
کچھ اس ادا سے کوئی ہم کلام ہوتا ہے
رہ جنوں میں لپٹتے ہیں پاؤں سے کانٹے
بہ ہر قدم یہ مرا احترام ہوتا ہے
نظر نظر پہ سر بزم ہے نظر ان کی
نظر نظر میں سلام و پیام ہوتا ہے
نصیرؔ اہل وفا کے بڑے مراتب ہیں
بہت بلند وفا کا مقام ہوتا ہے

غزل
عجیب منظر بالائے بام ہوتا ہے
پیر نصیر الدین شاہ نصیر