عجیب کرب و بلا کی ہے رات آنکھوں میں
سسکتی پیاس لبوں پر فرات آنکھوں میں
تمہیں تو گردش دوراں نے روند ڈالا ہے
رہی نہ کوئی بھی پہلی سی بات آنکھوں میں
قطار وار ستاروں کی جگمگاہٹ سے
سجا کے لائے ہیں غم کی برات آنکھوں میں
پھر اس کو دامن دل میں کہاں کہاں رکھیں
سمیٹ سکتے ہیں جو کائنات آنکھوں میں
بکھر گئے ہیں ملن کے تمام دن حیدرؔ
ٹھہر گئی ہے جدائی کی رات آنکھوں میں
غزل
عجیب کرب و بلا کی ہے رات آنکھوں میں
حیدر قریشی