عجیب کرب مسلسل دل و نظر میں رہا
وہ روشنی کا مسافر اندھیرے گھر میں رہا
وہ چاندنی کا مرقع نہیں تھا جگنو تھا
چراغ بن کے جلا اور شجر شجر میں رہا
کہاوتوں کی طرح وہ بھی شہر معنی تھا
بجھا بجھا سا دیا جو کسی کھنڈر میں رہا
وہ جس کو کھوج سرابوں میں تھی سمندر کی
وہ اپنے دشت دل و جاں کی رہ گزر میں رہا
وہی تو نقش قدم تھے جو سارے مٹتے گئے
وہ داغ سجدہ تھا باقی جو سنگ در میں رہا
یہی طلسم تھا زریںؔ جسے نہ توڑ سکی
وجود اس کا تو تقدیر کے بھنور میں رہا
غزل
عجیب کرب مسلسل دل و نظر میں رہا
عفت زریں