عجیب جنگ و جدال ہر پل ہے میرے اندر
کہ نور و ظلمت کا ایک مقتل ہے میرے اندر
اگے ہیں مجھ میں ہزار ہا خار زار پودے
پھر اس پہ طرہ کہ روح ململ ہے میرے اندر
یہ کیسی بے معنی زندگی ہو کے رہ گئی ہے
نہ کچھ ادھورا نہ کچھ مکمل ہے میرے اندر
میں جانتا ہوں کہ ختم ہوگا نہ یہ تعفن
مگر لٹاؤں گا جتنا صندل ہے میرے اندر
سمندروں میں کہاں تموج ہے ایسا ممکن
کہ جو تلاطم ہے جیسی ہلچل ہے میرے اندر
بڑے بڑوں کو سمجھ رہا ہے جو طفل مکتب
ندیمؔ آخر وہ کون پاگل ہے میرے اندر
غزل
عجیب جنگ و جدال ہر پل ہے میرے اندر
ندیم فاضلی