EN हिंदी
عجیب حال ہے صحرا نشیں ہیں گھر والے | شیح شیری
ajib haal hai sahra-nashin hain ghar wale

غزل

عجیب حال ہے صحرا نشیں ہیں گھر والے

حسن عزیز

;

عجیب حال ہے صحرا نشیں ہیں گھر والے
گھروں میں بیٹھ گئے ہیں ادھر ادھر والے

نواح جسم نہیں گرچہ ریگزار سے کم
یہاں بھی خطے کئی ہیں ہرے شجر والے

اگرچہ شور بہت ہے در دعا پہ مگر
زبانیں بند کیے بیٹھے ہیں اثر والے

ہے راہ جاں یوں ہی سنسان ایک مدت سے
نہ گرد اڑی نہ دکھائی دیے سفر والے

بغیر آنکھ کے چہروں کا اب چلن ہے یہاں
وہ دن گئے کہ ہوا کرتے تھے نظر والے

ابھی میں شہر کو صحرا بنائے دیتا ہوں
کہ میرے ہاتھ بھی کچھ کم نہیں ہنر والے

سمٹ کے رہ گئے اب چند ساعتوں میں حسنؔ
یہی تھے کام کسی وقت عمر بھر والے