عجیب دل میں مرے آج اضطراب سا ہے!
کھلی ہے آنکھ سمندر بھی ایک خواب سا ہے!
ٹھہر ٹھہر کے بجاتا ہے کوئی سازینہ
میں کیا کروں مرے سینے میں اک رباب سا ہے!
بجھے گی پیاس مری زہر آگہی سے کبھی
مرے دیار میں اس کا مزا شراب سا ہے!
میں کیوں کسی سے سر راہ رہبری مانگوں؟
نئی ہے منزل غم اک یہی جواب سا ہے!
چمکتی ریت سے رہ رہ کے اٹھ رہی نوا
کوئی مزار تھا پہلے کہ اب سراب سا ہے!
ہدف بنا کے نہ رسوا کرو زمانے میں
غریب شہر ہوں رتبہ مرا جناب سا ہے!
میں چھوڑ آیا ہوں مدت ہوئی غریبی کو
یہ میرا سایہ بڑا خانماں خراب سا ہے!
نہ جانے کیسے میں سیل رواں سے بچ نکلا؟
یہ زندگی کا تماشا تو اک حباب سا ہے!
میں کیسے خود کو سمجھ پاؤں بے کسی یہ ہے؟
کہ آئینہ نہیں عکسوں کا اک نقاب سا ہے!
نظر ملا کے میں اس سے گزر گیا باقرؔ
نہ جانے مجھ سے خفا یہ کہ لا جواب سا ہے!
غزل
عجیب دل میں مرے آج اضطراب سا ہے!
باقر مہدی