عجیب ڈھنگ سے میں نے یہاں گزارا کیا
کہ دل کو برف کیا ذہن کو شرارہ کیا
مزاج درد کو سب لفظ بھی قبول نہ تھے
کسی کسی کو ترے غم کا استعارہ کیا
پھر اس کے اشک بھی اس کو ادا نہ کر پائے
وہ دکھ جو اس کے تبسم نے آشکارا کیا
کہ جیسے آنکھ کے لگتے ہی کھل گئیں آنکھیں
نگاہ جاں نے بہت دور تک نظارہ کیا
ہمیں بھی دیکھ کہ تجسیم نو سے گزرے ہیں
بدن کو شیشہ کیا دل کو سنگ پارہ کیا
عجب مزاج تھا تنہائی آشنا کہ سعودؔ
خود اپنا ساتھ بھی مشکل سے ہی گوارا کیا
غزل
عجیب ڈھنگ سے میں نے یہاں گزارا کیا
سعود عثمانی