عجیب دور ہے اہل ہنر نہیں آتے
پدر کا علم لئے اب پسر نہیں آتے
ہوا کے جھونکے بھی لے کر خبر نہیں آتے
جو گھر سے جاتے ہیں پھر لوٹ کر نہیں آتے
ہزار شاخ تمنا کی دیکھ بھال کرو
یہ شاخ وہ ہے کہ جس پر ثمر نہیں آتے
سمجھ سکیں گے نہ میری گزر بسر کو حضور
سنہرے تخت سے جب تک اتر نہیں آتے
ہم ان کی سمت چلیں کس طرح سے میلوں میل
ہماری سمت جو بالشت بھر نہیں آتے
جناب شیخ کے حجرے سے دور ہی رہئے
فرشتے آتے ہیں اس میں بشر نہیں آتے
سوال ہی نہ تھا دشمن کی فتح یابی کا
ہماری صف میں منافق اگر نہیں آتے
نہ جانے کس کی نظر لگ گئی زمانے کو
کہ پھول چہرے شگفتہ نظر نہیں آتے
وہ دن گئے کہ کوئی خواب ہم کو تڑپائے
اب ایسے خواب ہمیں رات بھر نہیں آتے
ہم ان کی راہ میں آنکھیں بچھائیں کیوں ماہرؔ
جو آسماں سے سر رہ گزر نہیں آتے

غزل
عجیب دور ہے اہل ہنر نہیں آتے
ماہر عبدالحی