عجب سی کوئی بے یقیں رات تھی
کہیں تھوڑا دن تھا کہیں رات تھی
گرفتار تھی درد زہ میں بہت
وہ تخلیق کی اولیں رات تھی
تھیں چیزیں جہاں شکل پانے کے بعد
وہیں دن بھی تھا اور وہیں رات تھی
کہاں تھی یہ جب تک کہ ظاہر نہ تھی
فلک پر کہ زیر زمیں رات تھی
مرے ساتھ جو میرے بستر میں تھی
وہ سب سے زیادہ حسیں رات تھی
نکلتی تھی جو روشنی دیکھنے
کسی تیرہ گھر کی مکیں رات تھی
ملے بھی تو بکھرے ہوئے ماہ و سال
کہیں دن پڑا تھا کہیں رات تھی
کسی خار مانند چبھتی رہی
بظاہر بڑی مخملیں رات تھی
تھا ناراض دن میرے اک فعل پر
کسی بات پر خشمگیں رات تھی
زیادہ ہی گہری تھی شاہیںؔ شفق
بڑی دیر تک آتشیں رات تھی
غزل
عجب سی کوئی بے یقیں رات تھی
جاوید شاہین