عجب شکست کا احساس دل پہ چھایا تھا
کسی نے مجھ کو نشانا نہیں بنایا تھا
اسی نگاہ نے آنکھوں کو کر دیا پتھر
اسی نگاہ میں سب کچھ نظر بھی آیا تھا
یہاں تو ریت ہے پتھر ہیں اور کچھ بھی نہیں
وہ کیا دکھانے مجھے اتنی دور لایا تھا
الجھ گیا ہوں کچھ ایسا کہ یاد بھی تو نہیں
یہ وہم پہلے پہل کیسے دل میں آیا تھا
وہ میں نہیں تھا تمہاری طرف سرکتا ہوا
ہوس نے تیرگی کا فائدہ اٹھایا تھا
بچھڑنا اتنا ہی آسان تھا اگر اس سے
تو خودکشی کا یہ سامان کیوں جٹایا تھا
گلا تو آج بھی سچائی ہے مگر شارقؔ
یہ جھوٹ اس سے میں پہلے ہی بول آیا تھا
غزل
عجب شکست کا احساس دل پہ چھایا تھا
شارق کیفی