عجب رنگ کی مے پرستی رہی
کہ بے مے پیے مے کی مستی رہی
بکھرتے رہے گیسوئے عنبریں
صبا ان سے مل مل کے بستی رہی
رہا دور میں ساغر نرگسی
مری مے ان آنکھوں کی مستی رہی
وہ شکل اپنی ہر دم بدلتے رہے
یہاں مشق صورت پرستی رہی
وہیں رہ پڑے راہ میں حسن دوست
جہاں حسن والوں کی بستی رہی
ملی روز ہم فاقہ مستوں کو مے
خدا جانے مہنگی کہ سستی رہی
مبارکؔ پرستار مے خانہ تھا
یہ جب تک رہا مے پرستی رہی
غزل
عجب رنگ کی مے پرستی رہی
مبارک عظیم آبادی