عجب کیا ہے رہے اس پار بہتے جگنوؤں کی روشنی تحلیل کی زد میں
ہوائے بے وطن رکھ لے طلوع مہر کا اک زائچہ زنبیل کی زد میں
غم بے چہرگی کا عکس تھا جس نے وجود سنگ کو مبہوت کر ڈالا
تراشیں سلوٹیں جوں ہی خد و خال تحیر آ گئے تشکیل کی زد میں
شب وعدہ فصیل ہجر سے آگے چمکتا ہے ترا اسم ستارہ جو
کہ جیسے کوئی پیوند ردائے صبح آ جائے کسی قندیل کی زد میں
تماشائی دریچے میں تھرکتی سرخ آنکھوں کے طلسم خواب میں گم ہیں
مگر سہمی ہوئی کٹھ پتلیوں کی زندگی ہے آخری تمثیل کی زد میں
مرے نامے تہی مضموں سہی پھر بھی تری لوح مقفل کی امانت ہیں
کبھی تو آئے گی شکل حروف نا فرستادہ خط تاویل کی زد میں
غزل
عجب کیا ہے رہے اس پار بہتے جگنوؤں کی روشنی تحلیل کی زد میں
زاہد مسعود