EN हिंदी
عجب انسان ہوں خوش فہمیوں کے گھر میں رہتا ہوں | شیح شیری
ajab insan hun KHush-fahmiyon ke ghar mein rahta hun

غزل

عجب انسان ہوں خوش فہمیوں کے گھر میں رہتا ہوں

سلطان رشک

;

عجب انسان ہوں خوش فہمیوں کے گھر میں رہتا ہوں
میں جس منظر میں ہوں گم اس کے پس منظر میں رہتا ہوں

کوئی مانوس چاپ آئے سراغ آگہی لے کر
میں اپنی خواہشوں کے خانۂ بے در میں رہتا ہوں

جو مجھ سے میری ہستی لے گیا تھا ایک ساعت میں
بڑی مدت سے میں اس شخص کے پیکر میں رہتا ہوں

جو میں ظاہر میں ہوں وہ تو سراب ذات ہے یارو
میں اپنے ذہن کے بت خانۂ آزر میں رہتا ہوں

علامت فکر و دانش کی جہاں پتھر ہی پتھر ہے
مری ہمت کہ اس عہد ستم پرور میں رہتا ہوں