عجب اک طور ہے جو ہم ستم ایجاد رکھیں
کہ نہ اس شخص کو بھولیں نہ اسے یاد رکھیں
عہد اس کوچۂ دل سے ہے سو اس کوچے میں
ہے کوئی اپنی جگہ ہم جسے برباد رکھیں
کیا کہیں کتنے ہی نکتے ہیں جو برتے نہ گئے
خوش بدن عشق کریں اور ہمیں استاد رکھیں
بے ستوں اک نواحی میں ہے شہر دل کی
تیشہ انعام کریں اور کوئی فرہاد رکھیں
آشیانہ کوئی اپنا نہیں پر شوق یہ ہے
اک قفس لائیں کہیں سے کوئی صیاد رکھیں
ہم کو انفاس کی اپنے ہے عمارت کرنی
اس عمارت کی لبوں پر ترے بنیاد رکھیں
غزل
عجب اک طور ہے جو ہم ستم ایجاد رکھیں
جون ایلیا