عجب ہی ڈھنگ سے اب انجمن آرائی ہوتی ہے
جہاں پر بھی رہیں ہم ساتھ میں تنہائی ہوتی ہے
فتوحات دل و جاں پر یوں مت اترا مرے لشکر
کہ اس میدان میں فی الفور ہی پسپائی ہوتی ہے
یہ میلہ وقت کا ہے ہاتھ اس کے ہاتھ میں رکھنا
بچھڑ جائیں یہاں تو پھر کہاں یکجائی ہوتی ہے
ہم ایسے کچھ بھی کر لیں ان کی تہہ کو پا نہیں سکتے
امیر شہر کی باتوں میں وہ گہرائی ہوتی ہے
سلاست سے بیاں احوال دل کرنا ہے اک خوبی
بسا اوقات چپ رہنا بھی تو دانائی ہوتی ہے
زبان خلق گویائی کے گوہر تو لٹاتی ہے
لبوں پر جو نہیں آتی وہی سچائی ہوتی ہے

غزل
عجب ہی ڈھنگ سے اب انجمن آرائی ہوتی ہے
اسلام عظمی