ایسی وحشت نہیں دل کو کہ سنبھل جاؤں گا
صورت پیرہن تنگ نکل جاؤں گا
وہ نہیں ہوں کہ رکھائی سے جو ٹل جاؤں گا
آج جاتا تھا تو ضد سے تری کل جاؤں گا
شام ہجراں کسی صورت سے نہیں ہوتی صبح
منہ چھپا کر میں اندھیرے میں نکل جاؤں گا
کھینچ کر تیغ کمر سے کسے دکھلاتے ہو
ناف معشوق نہیں ہوں جو میں ٹل جاؤں گا
شب ہجر اپنی سیاہی کسے دکھلاتی ہے
کچھ میں لڑکا تو نہیں ہوں کہ دہل جاؤں گا
کوچۂ یار کا سودا ہے مرے سر کے ساتھ
پاؤں تھک تھک کے ہوں ہر چند کہ شل جاؤں گا
ضبط بیتابیٔ دل کی نہیں طاقت باقی
کوہ صبر اب یہ صدا دیتا ہے ٹل جاؤں گا
طالع بد کے اثر سے یہ یقیں ہے مجھ کو
تیری حسرت ہی میں اے حسن عمل جاؤں گا
چار دن زیست کے گزریں گے تأسف میں مجھے
حال دل پر کف افسوس میں مل جاؤں گا
شعلہ رویوں کو نہ دکھلاؤ مجھے اے آنکھو
موم سے نرم مرا دل ہے پگھل جاؤں گا
حال پیری کسے معلوم جوانی میں تھا
کیا سمجھتا تھا میں دو دن میں بدل جاؤں گا
وہی دیوانگی میری ہے بہار آنے دو
دیکھ کر لڑکوں کی صورت کو بہل جاؤں گا
شعر ڈھلتے ہیں مری فکر سے آج اے آتشؔ
مر کے کل گور کے سانچے میں میں ڈھل جاؤں گا
غزل
ایسی وحشت نہیں دل کو کہ سنبھل جاؤں گا
حیدر علی آتش