ایسی تشبیہ فقط حسن کی بدنامی ہے
ماہ عارض کو لکھا خامے کی یہ خامی ہے
رنگ یہ ان کی صباحت نے عجب دکھلایا
سرخ جوڑے پہ گماں ہوتا ہے بادامی ہے
کہتے پھرتے ہو برا مجھ کو یہ بات اچھی نہیں
میری رسوائی میں صاحب کی بھی بدنامی ہے
آپ کی باتوں سے دل پک گیا جب کہتا ہوں میں
ہنس کے کہتے ہیں یہ الفت کی فقط خامی ہے
چومتا ہے کوئی آنکھوں سے لگاتا ہے کوئی
ہے لباس آپ کا یا جامۂ احرامی ہے
نہیں ڈگنے کا قدم راہ وفا سے اپنا
جو ستم چاہو کرو صبر مرا حامی ہے
آپ کی عشق کی ایذا میں ہے لطف و راحت
آپ پر ختم مری جان دل آرامی ہے
ہم اکیلے نہیں رہتے شب تنہائی میں
یاس و اندوہ و غم و حسرت و ناکامی ہے
دل کو ابرو ہیں پسند آنکھ کو چشم مے گوں
کوئی دنیا میں ہلالی ہے کوئی جامی ہے
لوح قرآں جو کہا ان کی جبیں کو زیباؔ
اس میں کچھ شک نہیں تشبیہ یہ الحامی ہے
غزل
ایسی تشبیہ فقط حسن کی بدنامی ہے
زیبا