EN हिंदी
ایسی نئی کچھ بات نہ ہوگی | شیح شیری
aisi nai kuchh baat na hogi

غزل

ایسی نئی کچھ بات نہ ہوگی

اسرارالحق اسرار

;

ایسی نئی کچھ بات نہ ہوگی
ختم سحر تک رات نہ ہوگی

میری جہاں پر بات نہ ہوگی
تیری بھی اوقات نہ ہوگی

کیسے بجھیں گے جلتے مسائل
کھل کر جب تک بات نہ ہوگی

اہل سحر اس درجہ مگن ہیں
جیسے کبھی اب رات نہ ہوگی

میرے نہیں تو غیر کے ہو لو
تنہا بسر اوقات نہ ہوگی

سورج کا جلنا بجھنا کیا
ختم یہ کالی رات نہ ہوگی

دل کا سفر شعلوں کا سفر ہے
شبنم کی برسات نہ ہوگی

بازئ دل اسرارؔ اگر ہے
مات بھی تیری مات نہ ہوگی