ایسی مشکل میں نہ جاں تھی پہلے
زیست کب اتنی گراں تھی پہلے
آسماں تھا نہ زمیں تھی کوئی
کائنات ایک دھواں تھی پہلے
دھوپ بہروپ پگھلتا سونا
چاندنی آب رواں تھی پہلے
ایک مخصوص سماعت سب کی
ایک مانوس زباں تھی پہلے
قتل کے کب تھے یہ سارے ساماں
ایک تیر ایک کماں تھی پہلے
یہ جو بجلی سی چمک جاتی ہے
سات پردوں میں نہاں تھی پہلے
اس جگہ بنک نہیں ہوتا تھا
اک کتابوں کی دکاں تھی پہلے
کچھ تو رستے تھے ستاروں ایسے
کچھ طبیعت بھی رواں تھی پہلے
پھول ہی پھول کھلا کرتے تھے
مجھ میں یہ آگ کہاں تھی پہلے
زخم دیوار بتاتا ہے منیرؔ
ایک تصویر یہاں تھی پہلے
غزل
ایسی مشکل میں نہ جاں تھی پہلے
منیر سیفی