EN हिंदी
ایسی کوئی درپیش ہوا آئی ہمارے | شیح شیری
aisi koi darpesh hawa aai hamare

غزل

ایسی کوئی درپیش ہوا آئی ہمارے

ظفر اقبال

;

ایسی کوئی درپیش ہوا آئی ہمارے
جو ساتھ ہی پتے بھی اڑا لائی ہمارے

وہ ابر کہ چھایا رہا آنکھوں کے افق پر
وہ برق جو اندر کہیں لہرائی ہمارے

دیکھا ہے بہت خواب ملاقات بھی ہر روز
حصے میں جو اب آئی ہے تنہائی ہمارے

اس بار ملی ہے جو نتیجے میں برائی
کام آئی ہے اپنی کوئی اچھائی ہمارے

تھے ہی نہیں موجود تو کیوں خلق نے اس کی
چاروں طرف افواہ سی پھیلائی ہمارے

پھر جھوٹ کی اس میں ہمیں کرنی ہے ملاوٹ
پھر راس نہیں آئے گی سچائی ہمارے

ڈرتے ہوئے کھولا تو ہے یہ باب تعارف
پڑ جائے گلے ہی نہ شناسائی ہمارے

دعویٰ تو بہت رمز شناسی کا اسے تھا
یہ خلق اشارے نہ سمجھ پائی ہمارے

چل بھی دیے دکھلا کے تماشا تو ظفرؔ ہم
بیٹھے رہے تا دیر تماشائی ہمارے