ایسی بھی صورت حالات نہ سمجھی جائے
میری پسپائی مری مات نہ سمجھی جائے
یہ تو رستے مجھے لے آئے ہیں تیری جانب
یہ ملاقات ملاقات نہ سمجھی جائے
بعض اوقات میں نشے میں نہیں بھی ہوتا
میری ہر بات مری بات نہ سمجھی جائے
اب تو صحرا بھی مرے ساتھ سفر کرتے ہیں
صرف وحشت ہی مرے ساتھ نہ سمجھی جائے
فیصلے سارے کہیں اور ہوا کرتے ہیں
میری رسوائی مرے ہاتھ نہ سمجھی جائے
وقت آنے پہ گلا اپنا دبا سکتا ہوں
اتنی کمزور مری ذات نہ سمجھی جائے
غزل
ایسی بھی صورت حالات نہ سمجھی جائے
منیر سیفی