عیش و غم زندگی کے پھیرے ہیں
شب کی آغوش میں سویرے ہیں
میکدے سے وفا کی منزل تک
ہم فقیروں کے ہیرے پھیرے ہیں
مجھ کو مت دیکھ یوں حقارت سے
میں نے رخ زندگی کے پھیرے ہیں
ان کی زلفوں کی نرم چھاؤں میں
زندگی کے حسیں سویرے ہیں
میں ہوں معمار زندگی اے کیفؔ
دونوں عالم کے حسن میرے ہیں
غزل
عیش و غم زندگی کے پھیرے ہیں
کیف عظیم آبادی