EN हिंदी
عیش کی جانب جو مائل کچھ طبیعت ہو گئی | شیح شیری
aish ki jaanib jo mail kuchh tabiat ho gai

غزل

عیش کی جانب جو مائل کچھ طبیعت ہو گئی

جوشؔ ملیح آبادی

;

عیش کی جانب جو مائل کچھ طبیعت ہو گئی
دل پہ غصہ آ گیا اپنے سے نفرت ہو گئی

مجھ کو خود اپنی تباہی پر ترس آتا نہیں
خوگر غم اس قدر اب تو طبیعت ہو گئی

آئی جب اسٹیج پر دنیا تو دل خوش ہو گیا
جب اٹھا انجام کا پردہ تو نفرت ہو گئی

آ گئیں جنبش میں تسلیم و رضا کی قوتیں
لب ملے ہی تھے پئے شکوہ کہ آفت ہو گئی

اصطلاح بندگی میں روح ہیں تاروں کی جوشؔ
چند ذرے جن سے پیشانی کی زینت ہو گئی