عیش کی جانب جو مائل کچھ طبیعت ہو گئی
دل پہ غصہ آ گیا اپنے سے نفرت ہو گئی
مجھ کو خود اپنی تباہی پر ترس آتا نہیں
خوگر غم اس قدر اب تو طبیعت ہو گئی
آئی جب اسٹیج پر دنیا تو دل خوش ہو گیا
جب اٹھا انجام کا پردہ تو نفرت ہو گئی
آ گئیں جنبش میں تسلیم و رضا کی قوتیں
لب ملے ہی تھے پئے شکوہ کہ آفت ہو گئی
اصطلاح بندگی میں روح ہیں تاروں کی جوشؔ
چند ذرے جن سے پیشانی کی زینت ہو گئی
غزل
عیش کی جانب جو مائل کچھ طبیعت ہو گئی
جوشؔ ملیح آبادی