عیش کے جلسے ہجوم آلام کے
شعبدے ہیں گردش ایام کے
ہمت مردانہ تجھ کو آفریں
کر کے چھوڑا سر ہوئے جس کام کے
صبح کے بھولے تو آئے شام کو
دیکھیے کب آئیں بھولے شام کے
تو ہی کر تکلیف او پیک صبا
منتظر ہیں وہ مرے پیغام کے
حاشا للہ مے کدہ کے کاسے لیں
معتقد ہوں زاہد علام کے
مٹ گئی ہے دل سے آزادی کی یاد
کتنے خوگر ہو گئے ہم دام کے
اب تو چرچے جا بجا ہونے لگے
واعظوں کی بانگ بے ہنگام کے
غزل
عیش کے جلسے ہجوم آلام کے
اسماعیلؔ میرٹھی