ایسے ہجر کے موسم کب کب آتے ہیں
تیرے علاوہ یاد ہمیں سب آتے ہیں
جاگتی آنکھوں سے بھی دیکھو دنیا کو
خوابوں کا کیا ہے وہ ہر شب آتے ہیں
جذب کرے کیوں ریت ہماری اشکوں کو
تیرا دامن تر کرنے اب آتے ہیں
اب وہ سفر کی تاب نہیں باقی ورنہ
ہم کو بلاوے دشت سے جب تب آتے ہیں
کاغذ کی کشتی میں دریا پار کیا
دیکھو ہم کو کیا کیا کرتب آتے ہیں
غزل
ایسے ہجر کے موسم کب کب آتے ہیں
شہریار