EN हिंदी
ایسے ہی دن تھے کچھ ایسی شام تھی | شیح شیری
aise hi din the kuchh aisi sham thi

غزل

ایسے ہی دن تھے کچھ ایسی شام تھی

اعجاز عبید

;

ایسے ہی دن تھے کچھ ایسی شام تھی
وہ مگر کچھ اور ہنستی شام تھی

بہہ رہا تھا سرخ سورج کا جہاز
مانجھیوں کے گیت گاتی شام تھی

صبح سے تھیں ٹھنڈی ٹھنڈی بارشیں
پھر بھی وہ کیسی سلگتی شام تھی

گرم الاؤ میں سلگتی سردیاں
دھیمے دھیمے ہیر گاتی شام تھی

گھیر لیتے تھے طلائی دائرے
پانیوں میں بہتی بہتی شام تھی

عرش پر ہلتے ہوئے دو ہاتھ تھے
ساحلوں کی بھیگی بھیگی شام تھی

کتنی راتوں کو ہمیں یاد آئے گی
اپنی اکلوتی سہانی شام تھی

شاخ سے ہر سرخ پتی گر گئی
پھر وہی بوجھل سی پیلی شام تھی

چاندی چاندی رات کو یاد آئے گی
سونا سونا سی رنگیلی شام تھی

سولہویں زینے پہ سورج تھا عبیدؔ
جنوری کی اک سلونی شام تھی