EN हिंदी
ایسے غربت میں بیٹھا ہوں جیسے بڑا بار سر رکھ دیا | شیح شیری
aise ghurbat mein baiTha hun jaise baDa bar-e-sar rakh diya

غزل

ایسے غربت میں بیٹھا ہوں جیسے بڑا بار سر رکھ دیا

محشر بدایونی

;

ایسے غربت میں بیٹھا ہوں جیسے بڑا بار سر رکھ دیا
ایک صحن ایک در ایک دیوار کا نام گھر رکھ دیا

اس ہنر پر جو تم اس قدر نکتہ چیں ہو تو میں کیا کہوں
میرے مالک نے کیوں مجھ میں سچائیوں کا ہنر رکھ دیا

میں نے شاخیں تراشیں بلندئ نشو و نما کے لیے
تم کو تیشہ ملا تم نے تو کاٹ کر ہی شجر رکھ دیا

تیز تر باد خود سر چلی تو یہاں کون سی لو گھٹی
میں نے اور اک لہو سے جلا کر دیا بام پر رکھ دیا

میرا حصہ تھا کیا دکھ شناسائی کے زخم رسوائی کے
وقت کے روبرو میں نے سارا حساب سفر رکھ دیا

کتنے نادار دل تم نے ٹھکرا دیئے یہ نہ سوچا کبھی
اس محبت نے تو پائے افلاس پر تاج زر رکھ دیا

میں نے تو اپنا خود ہی لکھا فیصلہ لوگ ایسے بھی تھے
منصفی کے لیے پائے نا منصفی پر بھی سر رکھ دیا