ایسے بھی تھے کچھ حالات
دل سے چھپائی دل کی بات
ہر اک نے اک بات کہی
کوئی نہ سمجھا دل کی بات
شام و سحر کا نام نہ تھا
ایسے بھی دیکھے دن اور رات
عشق کی بازی کیا کہیے
سوچ سمجھ کر کھائی مات
دل کے ہاتھوں ہم مجبور
دل کی لاج پرائے ہات
حسن کے تیور کیا کہنے
ہر لحظہ اک تازہ بات
اشکوں کا طوفان اٹھا
غم میں ڈوب گئی برسات
تم بھی ضبط کرو ہم بھی
عشق ہے کس کے بس کی بات
سہمی سہمی سی وہ نگاہ
بدلے بدلے سے حالات
بھول گیا ہے سب کچھ دل
یاد آئی ہے کون سی بات
ایک تبسم اشک آلود
بھیگی بھیگی درد کی بات
غزل
ایسے بھی تھے کچھ حالات
صوفی تبسم