EN हिंदी
ایسا وار پڑا سر کا | شیح شیری
aisa war paDa sar ka

غزل

ایسا وار پڑا سر کا

باقی صدیقی

;

ایسا وار پڑا سر کا
بھول گئے رستہ گھر کا

زیست چلی ہے کس جانب
لے کاسہ کاسہ مر کا

کیا کیا رنگ بدلتا ہے
وحشی اپنے اندر کا

دل سے نکل کر دیکھو تو
کیا عالم ہے باہر کا

سر پر ڈالی سرسوں کی
پاؤں میں کانٹا کیکر کا

کون صدف کی بات کرے
نام بڑا ہے گوہر کا

دن ہے سینے کا گھاؤ
رات ہے کانٹا بستر کا

اب تو وہ جی سکتا ہے
جس کا دل ہو پتھر کا

چھوڑو شعر اٹھو باقیؔ
وقت ہوا ہے دفتر کا