EN हिंदी
ایسا تہ افلاک خرابہ نہیں کوئی | شیح شیری
aisa tah-e-aflak KHaraba nahin koi

غزل

ایسا تہ افلاک خرابہ نہیں کوئی

بشیر احمد بشیر

;

ایسا تہ افلاک خرابہ نہیں کوئی
اس دشت سے زندہ کبھی لوٹا نہیں کوئی

ہیبت وہ صداؤں میں کہ لرزے در و دیوار
گزرے وہ شب و روز کہ سویا نہیں کوئی

ویران سی ویران ہوئی دھیان کی بستی
چہرہ کسی چلمن سے جھلکتا نہیں کوئی

سر پھوڑ کے لوٹ آتی ہے جاتی ہے جو آواز
کیا گنبد آفاق میں رستہ نہیں کوئی

اک ایسی مسافت ہے کہ ساعت بھی کٹھن ہے
صدیوں کا سفر اور کہیں سایہ نہیں کوئی

بے اسم نہیں کھلتا در گنج طلسمات
سطروں میں خزینے ہیں تماشا نہیں کوئی

دیکھی ہے بشیرؔ اہل نظر کی بھی رسائی
باتیں مری سمجھے مجھے سمجھا نہیں کوئی