ایسا نہیں سلام کیا اور گزر گئے
جب بھی ملے کسی سے تو دل میں اتر گئے
ظلم و ستم کے آگے کبھی جو جھکے نہیں
ان کے نصیب ان کے مقدر سنور گئے
کردار بیچ دینے کا انجام یہ ہوا
دل میں اترنے والے نظر سے اتر گئے
کچھ کیفیت عجیب رہی اپنی دوستو
کی دوستی کسی سے تو حد سے گزر گئے
بچوں کی بھوک ماں کی دوا اور ہاتھ تنگ
یہ مرحلے بھی ہم کو گنہ گار کر گئے
کچھ زندگی تو مجھ سے مسائل نے چھین لی
جو بچ گئی تھی حادثے برباد کر گئے
ساحلؔ جب ان کو کوئی ٹھکانہ نہیں ملا
غم ان کے سارے میرے ہی دل میں ٹھہر گئے
غزل
ایسا نہیں سلام کیا اور گزر گئے
محمد علی ساحل