ایسا منظر تو کبھی دیکھا نہ تھا
روشنی میں بھی مرا سایہ نہ تھا
پیار کے بادل تو گزرے تھے مگر
دل کے صحرا میں کوئی برسا نہ تھا
عمر بھر پڑھتا رہا ایسا بھی خط
تو نے میرے نام جو لکھا نہ تھا
جسم کی دیوار اک تھی درمیاں
میں نے پا کر بھی تجھے پایا نہ تھا
یوں تو شبنم تھا مگر اے دوستو
میں کسی بھی پھول پر بکھرا نہ تھا
موت سینے سے لگا لینے کو ہے
زندگی نے حال تک پوچھا نہ تھا
اک ہجوم مہ وشاں تھا بزم میں
بس وہی اک چاند کا ٹکڑا نہ تھا
غزل
ایسا منظر تو کبھی دیکھا نہ تھا
افسر جمشید