ایسا لگتا ہے کسی گنبد سے ٹکرائی نہ تھی
ورنہ کب آواز میری لوٹ کر آئی نہ تھی
تھا تری قربت کی آنکھوں میں ہر اک نشہ مگر
نیند سے جاگی ہوئی یادوں کی انگڑائی نہ تھی
ہم کو اندھا کر گئی تھی ایک گہری روشنی
ظلمتوں کی زد میں آ کر آنکھ پتھرائی نہ تھی
قید تھا کیوں چاند صدیوں سے حصار ابر میں
کیوں اجالوں نے اسے پوشاک پہنائی نہ تھی
جل گیا اپنے ہی اندر کی حرارت سے بدن
سورجوں نے ہم پہ کوئی آگ برسائی نہ تھی
تیرے سینے میں ترا خوں برف کیسے ہو گیا
کیا ترے اندر حرارت کی توانائی نہ تھی
غزل
ایسا لگتا ہے کسی گنبد سے ٹکرائی نہ تھی
سورج نرائن