EN हिंदी
ایسا ہوا نہیں ہے پر ایسا نہ ہو کہیں | شیح شیری
aisa hua nahin hai par aisa na ho kahin

غزل

ایسا ہوا نہیں ہے پر ایسا نہ ہو کہیں

محمد علوی

;

ایسا ہوا نہیں ہے پر ایسا نہ ہو کہیں
اس نے مجھے نہ دیکھ کے دیکھا نہ ہو کہیں

قدموں کی چاپ دیر سے آتی ہے کان میں
کوئی مرے خیال میں پھرتا نہ ہو کہیں

سنکی ہوئی ہواؤں میں خوشبو کی آنچ ہے
پتوں میں کوئی پھول دہکتا نہ ہو کہیں

یہ کون جھانکتا ہے کواڑوں کی اوٹ سے
بتی بجھا کے دیکھ سویرا نہ ہو کہیں

علویؔ خدا کے واسطے گھر میں پڑے رہو
باہر نہ جاؤ پھر کوئی جھگڑا نہ ہو کہیں