ایسا بھی نہیں درد کے مارے نہیں دیکھے
ہم نے گل و بلبل کے اشارے نہیں دیکھے
جب میں نے کہا مرتا ہوں منہ پھیر کے بولے
سنتے تو ہیں پر عشق کے مارے نہیں دیکھے
ہر سمت پھرے خاک اڑایا کئے برسوں
پر نقش قدم ہم نے تمہارے نہیں دیکھے
پوشیدہ ہیں کس حد میں مری خاک کے ذرے
پتھر میں بھی اس طرح اشارے نہیں دیکھے
تربت میں مرے بند کفن کھول کے بولے
ہم نے دہن زخم تمہارے نہیں دیکھے
اب قبر پہ آئے ہو تو اس سمت بھی دیکھو
ہاں نیچی نگاہوں کے اشارے نہیں دیکھے
بے چین ہے دل فصل بہاری میں حسیںؔ کا
اب تک کسی گل رو کے اشارے نہیں دیکھے
غزل
ایسا بھی نہیں درد کے مارے نہیں دیکھے
سید صادق علی حسین