EN हिंदी
ایسا بھی نہیں درد کے مارے نہیں دیکھے | شیح شیری
aisa bhi nahin dard ke mare nahin dekhe

غزل

ایسا بھی نہیں درد کے مارے نہیں دیکھے

سید صادق علی حسین

;

ایسا بھی نہیں درد کے مارے نہیں دیکھے
ہم نے گل و بلبل کے اشارے نہیں دیکھے

جب میں نے کہا مرتا ہوں منہ پھیر کے بولے
سنتے تو ہیں پر عشق کے مارے نہیں دیکھے

ہر سمت پھرے خاک اڑایا کئے برسوں
پر نقش قدم ہم نے تمہارے نہیں دیکھے

پوشیدہ ہیں کس حد میں مری خاک کے ذرے
پتھر میں بھی اس طرح اشارے نہیں دیکھے

تربت میں مرے بند کفن کھول کے بولے
ہم نے دہن زخم تمہارے نہیں دیکھے

اب قبر پہ آئے ہو تو اس سمت بھی دیکھو
ہاں نیچی نگاہوں کے اشارے نہیں دیکھے

بے چین ہے دل فصل بہاری میں حسیںؔ کا
اب تک کسی گل رو کے اشارے نہیں دیکھے