اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے
گیسو کو کاٹیو مت وہ آپ کٹ رہی ہے
ہو کس طرح میسر اس بحر حسن کی سیر
ابرو کی ایک کشتی سو بھی الٹ رہی ہے
دل دینے کی حقیقت ہم خوب جانتے ہیں
ہے غم کسی کا اس کو جو زلف لٹ رہی ہے
محروم ہم ہی ہیں اس مہماں سرا میں ورنہ
کس کس طرح کی نعمت خلقت کو بٹ رہی ہے
خالی نہیں خلل سے ؔجوشش یہ خیبر دل
دن رات موج غم کی اس سے چمٹ رہی ہے
غزل
اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے
جوشش عظیم آبادی