EN हिंदी
اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے | شیح شیری
ai zulf uske munh se tu to lipaT rahi hai

غزل

اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے

جوشش عظیم آبادی

;

اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے
گیسو کو کاٹیو مت وہ آپ کٹ رہی ہے

ہو کس طرح میسر اس بحر حسن کی سیر
ابرو کی ایک کشتی سو بھی الٹ رہی ہے

دل دینے کی حقیقت ہم خوب جانتے ہیں
ہے غم کسی کا اس کو جو زلف لٹ رہی ہے

محروم ہم ہی ہیں اس مہماں سرا میں ورنہ
کس کس طرح کی نعمت خلقت کو بٹ رہی ہے

خالی نہیں خلل سے ؔجوشش یہ خیبر دل
دن رات موج غم کی اس سے چمٹ رہی ہے